5
The Forty Rules of Love
عشق کیا ہے، یہ کیسے ہو جاتا ہے ، عشق میں انسان کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ آخر عشق میں ایسی کون سی تاثیر ہے جو انسان میں ایک نئی روح پھونک دیتی ہے....؟
کہا جاتا ہے کہ عشق ایک بہت ممتاز جذبہ ہے۔ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ عشق کے دم سے ہی دنیا کی کشش باقی ہے۔ عشق خواہ وہ حقیقی ہو یا مجازی، ہر انسان میں خون کی طرح موجزن ہے۔ عشق کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ کہتے ہیں عشق کو علم، عقل پر برتری ہے۔ یہ عشق کی ہی سرمستی ہے جس نے انسانی جذبوں کے ارتقاء کی منزلیں سر کیں۔ عشق نے وہ کام کر دکھایا جو عقل نہ کرسکی۔
عشق کا جذبہ عمیق ہو، سچا ہو تو چاہے وہ مجازی ہو یا حقیقی ہو.... اپنا رنگ دکھاتا ہے اور منزل پاتا ہے۔ عشق جوں جوں بڑھتا ہے، وجدان اور معرفت میں اضافہ ہوتا ہے ، جب انسان وجدان کی منزلوں میں پہنچ جاتا ہے تو پھر سب کچھ اس کا ہوجاتا ہے۔ عشق قربِ الہٰی کا ذریعہ ہے۔ عشق ہی خالق و مخلوق میں رابطے کا سبب ہے۔ عشق کا سفر انسان سے شروع ہوتا ہے اور خدا پر ختم ہوتا ہے۔ یہی عشق کی انتہا ہے۔
عشق پر حکما ءاور اولیاء ، صوفیاء اور شعرا نے بہت کچھ لکھاہے لیکن عشق کا مفہوم اتنا وسیع اور گہرا ہے کہ آج بھی اس کے معانی و مفاہیم تک رسائی کی کوششیں جاری ہیں۔
ایسی ہی ایک کوشش ترکی نژاد مصنفہ الف شفق Elif Şafak نے کی ہے، ان کے ایک ناول Aşk(عشق) کا موضوع تصوّف اور عشق ہے۔ الف شفق کے اس بیسٹ سیلر ناول کا انگریزی ترجمہ The Forty Rules of Love یعنی عشق کے 40 اصول کے نام سے ہوا، اس ناول کو دنیا بھر میں خوب پزیرائی حاصل ہوئی۔
اس ناول میں دوکہانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، ایک کا تعلق عصرِحا ضر کی مغربی تہذیب سے ہےاور دوسری کہانی تیرہویں صدی کے عظیم صوفی شاعر،مولانا رومی اور اُن کے مرشد، شمس تبریز کی زندگی پر مشتمل ہے۔
شمس تبریز اور رومی کے درمیان مرشد و مرید کے عشق کی کہانی میں ناول میں مختلف جگہوں پر شمس تبریز نے رومی کو عشق کے40اصول سمجھائے۔ یہ اصول شمس تبریز کے دیوان اور جلال الدین رومی ؒ کی شاعری سے حاصل کیے گئے ہیں، جنہیں مختصراً اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے۔
40 اصول عشق کے
اب کتابی صورت میں روحانی ڈائجسٹ ایپ پر ملاحظہ فرمائیں
ایک تبصرہ شائع کریں